ایک خستہ حال مکان کے سامنے سڑک کے پاس بیٹھی ایک عورت صرف اس گھر کو دیکھ رہی تھی۔
اس کے ہاتھ میں ایک بڑا بیگ تھا جس میں کچھ گرم کپڑے اور امدادی کارکنوں کے پانی کی آدھی بوتل تھی۔
چند روز قبل تک جنوبی ترکی کے اسکندرون شہر کے وسط میں بنایا گیا اس گھر میں پانچ افراد رہائش پذیر تھے۔ تاہم، زلزلے کے دو بڑے جھٹکوں نے مکان کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا اور خاندان کو بے گھر کر دیا۔
تین بچوں کی ماں، 34 سالہ نہال گلکیتین نے کہا، “اس صبح ہم صرف بچوں کے ساتھ گھر سے باہر نکل سکے، ہمیں اپنا گھر بہت یاد آرہا ہے، ہم میں سے کوئی بھی پچھلے دس دنوں میں نہا نہیں سکا۔ “
سڑک کے دوسری طرف بنائے گئے تمام 14 مکانات کو منہدم کر کے ان کا ملبہ صاف کر کے وہاں لوگوں کے رہنے کے لیے عارضی خیمے لگا دیے گئے ہیں۔
رات کے وقت درجہ حرارت منفی سات ڈگری تک گر جاتا ہے لیکن یہاں پر پناہ لینے والے 800 خاندانوں کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
اب تقریباً ہر کسی کو اجنبیوں کے ساتھ کھانا اور رہنا ہے۔
ترکی-شام میں 6 فروری کو آنے والے تباہ کن زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد 42 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہاں کی لاکھوں عمارتوں میں یا تو دراڑیں پڑ چکی ہیں یا منہدم ہو چکی ہیں۔
کئی شہر اور قصبے ویران پڑے ہیں۔ صرف تباہی کا منظر ہے جو ہر طرف نظر آرہا ہے۔
جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے، یہ امیدیں کہ مزید لوگوں کو ملبے سے زندہ نکالا جا سکے گا، یہ امیدیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
لیکن ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ریلیف کیمپوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کو کب تک اور کیسے صاف بیت الخلاء، پینے کا صاف پانی اور تازہ کھانا فراہم کیا جائے۔