ملائیشیا کے قونصل جنرل خیرالنظام ابد رحمان نے وزارت تجارت پاکستان کی جانب سے ایئر کنڈیشنرزکی درآمد پر ٹیرف کی شرح میں اضافے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایئرکنڈیشنرز و دیگر مصنوعات کی درآمد پر ٹیرف بڑھانے کے فیصلے کو ایس آر او کے ذریعے آگاہ کیا گیا جو پاکستان ملائیشیا آزاد تجارتی معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ریگولیٹری ڈیوٹیز کے نفاذ کے ذریعے ٹیرف میں اضافے کے بجائے حکومت پاکستان کسی ایسے نظام کو متعارف کرائے جس سے سب کے لئے جیت ہی جیت کی صورتحال پیدا ہو اور ملائیشین برآمدکنندگان متاثر نہ ہوں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب میں کیا۔کے سی سی آئی کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا، سینئر نائب صدر خرم شہزاد، نائب صدر آصف شیخ جاوید،چیئرمین ڈپلومیٹک مشنز و ایمبیسیز لائژن سب کمیٹی شمعون ذکی اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی اجلاس میں شریک تھے۔خیرالنظام ابد رحمان نے کہاکہ اگرچہ پاکستان اور ملائیشیا نے ایف ٹی اے پر دستخط کیے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود کاروبار میں بہت زیادہ تیزی دیکھنے میں نہیں آئی جس پر خصوصی توجہ دینے اور دونوں جانب سے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ دو طرفہ تجارت میں بہتری تو آرہی ہے تاہم اس کی رفتار سست ہے اور گزشتہ سال بھی تجارتی حجم صرف 2.5فیصد ہی بڑھ پایا۔انہوں نے کہا کہ یہی مناسب وقت ہے کہ رابطے قائم کیے جائیں اور مشترکہ طور پر کام کیا جائے کیونکہ پاکستان اور ملائیشیا میں نئی حکومتوں نے حال ہی میں ملک کے امور سنبھالے ہیں۔انہوں نے مستقل بنیادوں پر تجارتی وفود کے تبادلے اور دونوں ملکوں میں سال بھر ہونے والی تجارت کو فروغ دینے کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر زور دیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے میں یقینی طور پر مدد ملے گی۔ملائیشین قونصل جنرل نے بعض نمایاں شعبوں پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستانی برآمدکنندگان کو مشورہ دیا کہ وہ ملائیشیا میں باسمتی چاول،اری6اور آم برآمد کرنے کے امکانات کاجائزہ لیں جومسابقتی قیمتوں پرپیشکش کئے جاسکتے ہیں جبکہ ملائیشین تاجر برادری پاکستان میں انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں دلچسپی لے سکتے ہیں خاص طور پر پاکستانی حکومت کی جانب سے اعلان کی گئی 50لاکھ گھروں کی اسکیم جو ایک اچھا موقع ہے۔غیرملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے کامیاب کہانیوں کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے جنہیں دیکھتے ہوئے یقیناًملائیشین تاجر پاکستان میں دستیاب مختلف مواقعوں میں دلچسپی لیں گے ۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ 8 ماہ پہلے بطور ملائیشین قونصل جنرل انہوں نے ذمہ داریاں سنبھالیں اور اس دوران کراچی کے شہریوں کو بہت دوستانہ اور مہمان نواز پایا۔ قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے ملائیشین قونصل جنرل کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہونے کی توقع ہے کیونکہ ہ حکومت دونوں برادرانہ ممالک کے مابین موجودہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے بہت سنجیدہ ہے۔انہوں نے آر ڈی کے نفاذ پر قونصل جنرل کی جانب سے تحفظات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مختلف سفارتکار بشمول جرمن قونصل جنرل نے بھی آر ڈی کے نفاذ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن حکومت نے یہ اقدام صرف اس لیے اٹھایا ہے تاکہ پرتعش اشیا کی غیر ضروری درآمد کی حوصلہ شکنی کی جاسکے کیونکہ موجودہ حالات میں پاکستان پرتعش اشیا کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تاہم جنید ماکڈا نے ملائیشین قونصل جنرل کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ملائیشیا سے ایئرکنڈیشنرز کی درآمد پر آر ڈی کے نفاذ کے مسئلے پر وزیر اعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد اور وزیر خزانہ اسد عمر سے تبادلہ خیال کریں گے کیونکہ پاکستان ایف ٹی اے کے تحت ملائیشیا سے کیے گئے اپنے وعدوں سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔انہوں نے اس موقع پرکراچی میں سرمایہ کاری کے دستیاب مواقعوں کو اجاگر کیا جو پاکستان کا اقتصادی مرکز ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ شہرملائیشین تاجروصنعتکار برادری کو منافع بخش سرمایہ کاری کے مواقعوں اور کاروباری سہولتوں،سرمایہ کاری اور مشترکہ شراکت داری کی پیشکش کرتا ہے۔کراچی کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے حال ہی میں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت میں ملک کے بڑے چیمبرز کے صدور کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اعتراف کیا کہ کراچی قومی خزانے میں 70فیصد ریونیو کا حصہ دار ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ وفاقی حکومت نے کراچی کی حصہ داری کو تسلیم کیا کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے یا تو انکار کیا یا کراچی کے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار سے اختلاف کیا ۔جنید ماکڈا نے زور دیا کہ پاکستان اور ملائیشیا کوباہمی تعاون کے نئے شعبوں کو تلاش کرنا ہوگا اور تجارتی و اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینے کی کوششیں کرنا ہوں گی۔اسلامک فنانس،حلال فوڈز انڈسٹریز،توانائی،کم لاگت مکانات،اانفرااسٹرکچر کی ترقی،ٹیلی کمیونی کیشن اور تعلیم کے شعبوں میں سرمایہ کاری اور مشترکہ شراکت داری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔انہوں نے کہاکہ ملائیشین مارکیٹ پاکستانی پھلوں اور سبزیوں جیسے آم ،مالٹا،آلو اور پیاز کے لیے ایک زبردست مارکیٹ ہے۔انہوں نے پاکستان کے شاندار اور محنتی ہیومن ریسورس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے لیے اپنے ماہرین،تکنیکی اور تعلیم یافتہ انسانی وسائل کو ملائیشیا برآمد کرنے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔انہوں نے قونصل جنرل کوبتایا کہ پاکستانی کسی پابندی کے بغیر ایک کھلی معیشت ہے جہاں ملائیشین ادارے اور ٹھیکیدار اپنا کاروبار قائم کرکے فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔پاکستان دنیا بھر میں گردے کی بیماریوں کے حوالے سے آٹھواں ملک ہے
Post Code: W004
این این آئی