اس وقت رات کے نو یا دس بج رہے تھے۔ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا اور اس اندھیرے میں لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔
پانی کے تیز ریلے میں ایک ٹرالی پھنسی تھی جس میں ڈرائیور سمیت 13 افراد سوار تھے۔
پانی کا ریلا اتنا تیز تھا کہ کنارے پر کھڑے افراد کے لیے آگے بڑھ کر ٹرالی پر پھنسے لوگوں کی مدد کرنا ناممکن تھا۔ وہ لوگ بس ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور کسی معجزے کی دعا مانگ رہے تھے۔
دوسری طرف ٹرالی پر پھنسے لوگ اپنی چیخ وپکار میں کنارے پر کھڑے ساتھیوں کی آوازیں تو سُن سکتے تھے مگر ان کی بات سمجھ سے باہر تھی۔
پانی کا شور تھا اور آواز سامنے بنی پہاڑی سے گونج کر واپس پلٹ رہی تھی۔
اتنے میں پانی اپنی پوری طاقت سے ٹرالی کو بہا کر لے گیا اور اس پر سوار درجن بھر لوگ تنکوں کی مانند اس کے ساتھ ہی بہے گئے۔
یہ قلعہ عبداللہ کا علاقہ تھا جہاں ٹرالی ڈوبنے کی یہ ویڈیو اس وقت وائرل ہوئی جب بلوچستان میں حالیہ سیلاب کا دوسرا سپیل شروع ہوا اور ہر طرف تباہی پھیل گئی۔
ٹرالی پر سوار افراد میں سے تین ہلاک ہوئے جبکہ باقی کئی کلومیٹر تک بہنے کے باوجود معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے۔
قلعہ عبداللہ کے مرکزی بازار سے کچھ فاصلے پر مقامی طرز پر بنے کچے گھروں میں سے ایک میں دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی صف ماتم بچھی تھی۔
یہاں 16 سالہ معمر خان کی موت ہوئی تھی۔ معمر اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ اسی ٹرالی پر سوار تھے۔
وہ مقامی فٹبال ٹیم کے کھلاڑی تھے اور ان کی ہلاکت کے بعد ان کی فٹبال کھیلتے ہوئے کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر ہوتی رہیں۔
پنجاب حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کا حصہ نہیں بنے گی، وزیر داخلہ پنجاب
Shakira could face 8 years in jail
پاکستان میں صحت عامہ کی صورتحال تباہی کے دہانے پر ہے، عالمی ادارہ صحت