امریکا، چین، متحدہ عرب امارات اور روس سمیت دنیا کے کئی ممالک خلاء کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے مدمقابل ہیں۔ اس وقت چاند کے علاوہ نظام شمسی کے کئی سیاروں پر بھی تلاش کا کام تیز کر دیا گیا ہے۔ اب تک صرف مریخ، زحل اور مشتری کے سیاروں پر زیادہ بات کی جاتی تھی لیکن اب آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ نظام شمسی کے ایک اور سیارے یورینس یعنی سیارہ یورینس کو بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ نظام شمسی میں مریخ اور زحل سے متعلق تحقیق کرنے والے محققین اب سیارہ یورینس میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے اس حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔
اس میں انہوں نے امریکی خلائی ایجنسی ناسا سے سیارہ یورینس کی تلاش شروع کرنے کو کہا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سیارہ یورینس کو اگلی دہائی کے لیے ایک بڑا پروگرام قرار دیا جائے۔ اکیڈمی ہر 10 سال بعد سیاروں کی تلاش کے لیے امریکہ کی ترجیحات پر ایک رپورٹ شائع کرتی ہے۔ سروے کی ہر دہائی پر رپورٹ کا بہت بڑا اثر ہے، جس کا مطلب ہے کہ ناسا اب اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے دباؤ میں ہے۔ ساتھ ہی یورینس میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اس رپورٹ کے آنے سے خوش ہیں۔ لیسٹر یونیورسٹی کے سیاروں کے سائنسدان پروفیسر لی فلیچر کا کہنا ہے کہ یہ زبردست خبر ہے۔ نظام شمسی میں کچھ ایسی جگہیں ہیں جن کے بارے میں ہم یورینس سے زیادہ یا کم جانتے ہیں۔ یہاں تک کہ پلوٹو کی بھی چھان بین کی جا چکی ہے، اسی طرح یورینس مشن کو بھی جانا چاہیے۔
تیرہ مارچ 1978 کی رات، جرمن-برطانوی ماہر فلکیات ولیم ہرشل نیو کنگ سٹریٹ میں اپنی دوربین کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس دوران اس نے زیٹا ٹوری ستارے کے سامنے ایک غیر معمولی مدھم روشنی دیکھی۔ وہ کئی دنوں تک اسے دیکھتا رہا اور اسی سے اسے معلوم ہوا کہ بات گھوم رہی ہے۔ شروع میں ان کا خیال تھا کہ یہ کوئی دومکیت ہے۔ لیکن بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ یہ سورج سے دور ایک سیارہ ہے۔ اس نے اس ستارے کا نام یورینس رکھا۔
تحقیق کے مطابق یورینس بذات خود ایک بہت ہی خاص سیارہ ہے۔ نظام شمسی کے باقی سیارے اپنے محور پر سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ یورینس کا صرف ایک حصہ سورج کی طرف ہے۔ یہ سورج سے زیادہ دور نہیں ہے، پھر بھی یہ ایک سرد سیارہ ہے۔ تاہم 1986 میں انسان کی بنائی ہوئی مشین
خلائی جہاز اس کے قریب سے گزرا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سیارے کا ماحول ہائیڈروجن، ہیلیم اور میتھین سے بنا ہے۔ اس کے کئی چاند ہیں۔ اور اس کا مقناطیسی میدان بھی بہت مضبوط ہے۔ اس سیارے پر ہیروں کی بارش ہوتی ہے۔ لیکن یہ زمین پر بارش کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک سائنسی عمل کی وجہ سے بنتا ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گیس سے بنے اس سیارے کے اندرونی حصوں میں ماحولیاتی دباؤ زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے ہائیڈروجن اور کاربن کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہیروں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ یورینس کی جسامت کی بات کریں تو یہ زمین سے 17 گنا بڑا ہے۔ ایک حالیہ تجربے میں سائنسدانوں نے یہاں ہیروں کی بارش کے بارے میں بتایا تھا۔
