ملتان(تجزیہ :عبدالستار بلوچ )طالبان حکومت افغانستان کے معاملے میں پاکستان کے بدلتے ہوئے رویے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے

افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ گزشتہ سال انکے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان نے جو دوستانہ رویہ دکھایا تھا

وہ اب نہیں رہا اوریہی وجہ ہے کہ اب پاکستان افغانستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں کو زیادہ فوکس کر رہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستان افغانستان میں بھارت کے بڑھتےکردار اور اثر و رسوخ سے بھی خوش نہیں ہے ۔یوں افغانستان کی موجودہ حکومت کیساتھ پاکستان کے تعلقات میں تلخی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔تجزیہ کاروں کیمطابق پاکستان کو شکایت ہے کہ طالبان حکومت نے اسکے تحفظات کو دور نہیں کیا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کےبعد سے پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں میں 56 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور داعش خراسان کی پناہ گاہیں افغانستان میں بدستور موجود ہیں۔ پاکستان کو شکایت ہے کہ یہ گروپ سرحد پارسےپاکستان پر دہشتگردانہ حملے کر رہے ہیں اورخاص طور پاکستان ٹی ٹی پی کانشانہ بنا ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ اس سال ستمبر میں وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میںافغانستان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں سرگرم دہشتگرد گروپوں کے حوالے سے عالمی برادری کی تشویش سےمتفق ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی اس تقریرپرطالبان میں شدید ناراضی دیکھی گئی۔ دوسری جانب کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان ایک خود مختار خارجہ پالیسی اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں سماجیات کے اسسٹنٹ پروفیسر احمد وقاص نے اپنے ایک تبصرے میں لکھا کہ طالبان بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ دو طرفہ تجارت اور انسانی امداد دوبارہ شروع کرے اور نہ صرف افغانستان میں اپنا کردار ادا کرے بلکہ اس میں اضافہ بھی کرے۔ مزید براں طالبان نے افغان فورسز کی تربیت میں ہندوستان کی مدد لینے میں دلچسپی بھی ظاہر کی ہے۔احمد وقاص کیمطابق طالبان نے ایران میں چابہار بندرگاہ کے منصوبے کی حمایت کی ہے جبکہ پاکستان اس منصوبے کو گوادر کی بندرگاہ کی اہمیت کم کرنے کا منصوبہ سمجھتا ہے۔ یوں طالبان کیجانب سے پاکستان کے مفادات کو نظر انداز کرنے کی یہ بھی ایک مثال ہے۔
ماہرین کیمطابق افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا پاکستان کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے نقطہ نظر سے بہت اہم ہے جبکہ دوسری جانب موجودہ طالبان حکومت پاکستان کو مسلسل یہ باور کرا رہی ہے کہ یہ 1990 کی طالبان حکومت نہیں ہے جب یہ تاثر تھا کہ طالبان حکومت کی طنابیں پاکستان کے ہاتھ میں ہیں۔طالبان کے ذرائع بھی یہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان کیساتھ انکے تعلقات سرپرست اور ماتحت کے نہیں ہو سکتے۔
طالبان کو شکایت ہے کہ حکومت پاکستان انکے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کرتی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تعلقات حالیہ مہینوں میں مسلسل بگاڑ کا شکار رہے ہیں جس کی وجہ سے دونوں طرف سے اختلافات اور رنجشوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

پنجاب حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کا حصہ نہیں بنے گی، وزیر داخلہ پنجاب

Shakira could face 8 years in jail

پاکستان میں صحت عامہ کی صورتحال تباہی کے دہانے پر ہے، عالمی ادارہ صحت

اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.